Live Updates: شام میں 13 برس بعد بغاوت کامیاب، بشار الاسد ملک چھوڑ کر بھاگ گئے
شام کی قسمت کا فیصلہ شامیوں کو کرنا چاہیے، ایران
ایران کا کہنا ہے کہ شام کی قسمت کا فیصلہ شام کے شہریوں کو کرنا چاہیے۔
شام میں حکومت مخالف عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئے ہیں اور ملک بھر میں پیش قدمی کر رہے ہیں جبکہ بظاہر اسد خاندان کے پچاس سالہ دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کی صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے ایران کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ شام کی تقدیر صرف شامی عوام کی ذمہ داری ہے اور اسے غیر ملکی مسلط یا تباہ کن مداخلت کے بغیر آگے بڑھانا چاہیے۔
ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جلد از جلد فوجی تنازعات کو ختم کرنے، دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے اور معاشرے کے تمام طبقات کی شرکت کے ساتھ قومی مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک جامع حکومت کی تشکیل ہو جو تمام شامی عوام کی نمائندگی کرے۔
بیان میں کہا گیا کہ تہران شام میں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے بین الاقوامی میکانزم اور خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ایران اور شام کے درمیان دیرینہ اور دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کے "دانشمندانہ اور دور اندیشی" کی بنیاد پر جاری رہنے کی امید ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ایران تمام بااثر جماعتوں کے ساتھ اپنی مشاورت جاری رکھے گا اور خاص طور پر خطے میں اور شام میں سلامتی اور استحکام کے قیام میں مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔
شام سے فرار کے بعد بشار الاسد کا طیارہ حادثے کا شکار؟
شام کے صدر بشار الاسد کے فرار ہونے کے بعد اب دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ دمشق سے فرار ہونے کے لیے جس طیارے پر سوار ہوئے وہ کہیں گر کر تباہ ہوگیا۔
مخلتف ذرائع ابلاغ پر دعویٰ کیا گیا کہ شام سے فرار ہونیوالے شامی صدر بشار الاسد کا جیٹ طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا۔
عالمی میڈیا کے مطابق شام کے صدر بشار الاسد کو لے جانیوالا طیارہ مشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پہلے ٹیک آف کرنے کے بعد یا تو گر کر تباہ ہو گیا ہے یا حمص کے مغرب میں ہنگامی لینڈنگ کر چکا ہے۔ جس کے بعد سوار افراد کی حفاظت کے بارے میں خدشات پیدا ہو گئے۔
دنیا کی مختلف پروازوں کو ٹریک کرنے والی فلائٹ ٹریڈر 24 ویب سائٹ کے مطابق شامی ایئرلائن کا ایک طیارہ دمشق ہوائی اڈے سے اسی وقت روانہ ہوا جب باغی فوجیوں نے شہر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ طیارہ شام کے ساحل کی طرف جا رہا تھا۔
تاہم طیارے نے اچانک اپنا رخ بدلا اور چند منٹوں کے لیے دوسری سمت کی طرف جانے لگا۔ بعد ازاں کچھ ہی دیر بعد یہ حمص شہر کے قریب ریڈار سے غائب ہو گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پرواز کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ طیارہ غائب ہونے سے قبل تیز رفتار کے ساتھ اونچائی سے زمین پر گرا۔ یہ تاحال واضح نہیں ہے کہ طیارے آخر گیا کہاں۔ لیکن شامی صدر کی پرواز کے راستے میں اچانک تبدیلی اور سگنل اچانک غائب ہونے سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ یا تو انہیں حملے میں مار دیا گیا یا ان کا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طیارہ شام کے شہر لطاکیہ میں ایک روسی ایئربیس کی طرف جا رہا تھا، جسے اسد کے لیے محفوظ مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایئربیس روسی افواج کے زیر کنٹرول ہے اور شام کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں باغیوں نے قبضہ نہیں کیا۔ تاہم اس حوالے سے حکام کی جانب سے تاحال تصدیق سامنے نہیں آئی۔
دوسری جانب ترک میڈیا نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ طیارہ مبینہ طور پر گر کر تباہ ہوا، شاید اسے باغیوں نے مار گرایا، کیونکہ ان کے پاس طیارہ شکن نظام بہت زیادہ ہے، شامی فوج نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا۔ ایک ورژن یہ بھی ہے کہ ہوائی جہاز نے ٹرانسپونڈر کو بند کر دیا تاکہ اسے ٹریک نہ کیا جا سکے۔ اس وقت طیارہ گرنے کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی لیکن اس کی تردید بھی نہیں کی جا رہی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق دمشق چھوڑنے کے بعد بشار الاسد کہاں گئے؟ شامی باغیوں نے فوج کے اعلیٰ افسران اور خفیہ ادارے کے اہلکاروں سے تفتیش شروع کردی ہے۔ آن لائن ریڈار کے مطابق دمشق ائیرپورٹ سے اڑنے والا آخری طیارہ شامی ایئرفورس کا طیارہ تھا جو حمص شہر کے اوپر چکر کاٹنے کے بعد ریڈار سے غائب ہوگیا۔ شامی وزیر اعظم نے بھی بشار الاسد کے ٹھکانے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
یونان میں شام کے سفارت خانے پر شامی اپوزیشن کا پرچم لہرا دیا گیا
یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں موجود شام کے سفارت خانے پر شامی اپوزیشن کا پرچم لہرا دیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق شام میں عسکریت پسندوں کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہونے اور صدر بشارالاسد کے مبینہ ملک سے فرار ہونے کے بعد شامی اپوزیشن کا جھنڈا ایتھنز میں موجود شامی سفارت خانے پر لہرایا گیا۔
یونان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے این اے کے مطابق 3 افراد سفارت خانے میں داخل ہوئے اور انہوں نے عمارت پر جھنڈا لہرایا۔
بعدازاں، افسران کو جائے وقوعہ پر بھیجا گیا اور تین افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
ایک شخص کو سفارت خانے کی بالکونی میں الاسد کی تصویر پکڑے اور ڈکٹیٹر کا نعرہ لگاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
شامی جو 1970 میں الاسد کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد یونان فرار ہو گئے تھے جشن منانے کے لیے سفارت خانے آئے تھے جبکہ یونان میں شامی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا گیا کہ 24 ملین شامی ساری رات نہیں سوئے۔
2015 کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی لہر میں دسیوں ہزار شامی یونان فرار ہو گئے تھے۔
یونانی وزارت کے مطابق 15000 سے زائد شامیوں کے پاس یونان میں رہائش کے اجازت نامے ہیں۔
بشار الاسد سے آخری گفتگو کیا ہوئی ؟ شامی وزیر اعظم نے بتادیا
شامی وزیر اعظم محمد الجلالی کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد سے آخری بار گزشتہ شام رابطہ ہوا تھا، وہ کہاں ہیں، کوئی علم نہیں۔
شام میں حکومت مخالف عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئے ہیں اور ملک بھر میں پیش قدمی کر رہے ہیں جبکہ بظاہر اسد خاندان کے پچاس سالہ دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
غیر ملکی رپورٹس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ شام کے صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔
شامی وزیر اعظم محمد الجلالی کا بھی اب ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بشار الاسد سے آخری بار گزشتہ شام رابطہ ہوا تھا، اب وہ کہاں ہیں اس حوالے سے کوئی علم نہیں ہے۔
محمد الجلالی نے بتایا کہ آخری گفتگو میں بشار الاسد سے تازہ ترین صورتحال پر بات کی تو انہوں نے کہا اس پر کل بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انتظامی امور چلانے کے لیے اپوزیشن فورسز کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات ہونے چاہییں اور لوگوں کو اپنا حکمران چننے کا حق ہے جبکہ میں منتخب قیادت سے مکمل تعاون کروں گا۔
بشار الاسد کا تختہ الٹنے والے ابو محمد الجولانی کون ہیں ؟
ابو محمد الجولانی شام کی مسلح اپوزیشن تنظیم حیات تحریر الشام کے سربراہ ہیں۔ ان کا اصل نام احمد حسین الشرا ہے اور وہ 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک پیٹرولیم انجینئر تھے اور ان کا خاندان 1989 میں شام واپس آیا جہاں وہ دمشق کے قریب آباد ہوئے۔
رپورٹس کے مطابق دمشق میں گزرے وقت کے بارے میں ان کے حوالے سے زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن یہ معلومات ہیں کہ 2003 میں وہ عراق منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے اسی سال امریکا کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے طور پر القاعدہ میں شمولیت اختیار کی۔
بعد ازاں ابو محمد الجولانی کو 2006 میں عراق میں امریکی افواج نے گرفتار کیا اور 5 سال تک قید میں رکھا۔ رہائی کے بعد، الجولانی کو شام میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم 'النصرہ فرنٹ' قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، جس نے خاص طور پر ادلب میں مخالف قوتوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں اپنا اثر بڑھایا۔
رپورٹس کے مطابق ابتدائی سالوں میں الجولانی نے ابو بکر البغدادی کے ساتھ کام کیا، جو عراق میں القاعدہ کے اسلامی ریاست کے سربراہ تھے جو بعد میں داعش کے نام سے جانی جانے لگی۔
اپریل 2013 میں البغدادی نے اچانک اعلان کیا کہ ان کی تنظیم القاعدہ سے تعلق ختم کر رہی ہے اور شام میں پھیل رہی ہے، جس سے النصرہ فرنٹ کو ایک نئی تنظیم داعش میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم الجولانی نے اس تبدیلی کو مسترد کر دیا اور القاعدہ کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھی۔
سنہ 2014 میں میں اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں الجولانی نے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ شام کو اسلامی قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے اور ملک کی اقلیتوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
تاہم وقت گزرنے کےساتھ الجولانی اس منصوبے سے دور ہوتے نظر آئے اور اس کی بجائے وہ شام کی سرحدوں کے اندر اپنے گروپ کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرتے دکھائی دیے۔
پھر جولائی 2016 میں شامی شہر حلب حکومت کے قبضے میں چلا گیا اور وہاں موجود مسلح گروہ ادلب کا رخ کرنے لگے، اس کے بعد الجولانی نے اعلان کیا کہ ان کے گروپ کا نام بدل کر جبہت فتح الشام کر دیا گیا ہے۔
2017 کے اوائل تک ہزاروں جنگجوحلب سے فرار ہو کر ادلب پہنچے اور الجولانی نے اعلان کیا کہ ان گروپوں میں سے کئی کو اپنے گروپ کے ساتھ ضم کر دیا گیا ہے اور اسے حیات تحریر الشام کا نام دیا گیا۔
باغی گروہ حیات تحریر الشام کا واضح مقصد شام کو صدر بشارالاسد کی آمرانہ حکومت سے آزاد کرانا، ملک سے ایرانی ملیشیاؤں کو نکالنا،ایک اسلامی قانون کے تحت ریاست قائم کرنا ہے۔
گزشتہ دنوں ابو محمد الجولانی نے شام کے ایک نامعلوم مقام سے امریکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اس حکومت کی شکست کے بیج ہمیشہ سے اس کے اندر تھے، ایران نے اس حکومت کو بحال کرنے اور اس کے لیے مزید وقت لینے کوشش کی جب کہ روس نے بھی اسے سہارا دینے کی کوششیں کی مگر حقیقت یہی ہے کہ اس حکومت کی موت ہوچکی ہے۔
باغی لیڈر نے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میر اخیال ہے جیسے ہی موجودہ حکومت گر ے گی تو غیر ملکی افواج کی شام میں ضرورت نہیں رہے گی۔
کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی، محمد الجولانی
شامی اپوزیشن لیڈر محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ جنگجو جہاں پرقبضہ کریں لوگوں کے ساتھ رحم دل اور نرمی سے پیش آئیں، ہتھیار پھینکنے والے سرکاری فوجیوں کیلئے عام معافی ہوں گی۔
محمد الجولانی نے کہا کہ شامی دارالحکومت دمشق کا گھیراؤ شروع کر دیا ہے باغی دمشق کے کنارے پر ہیں اور حکومت کا خاتمہ قریب ہے۔
دوسری جانب شامی انقلاب اور اپوزیشن فورسز کے قومی اتحاد کے سربراہ ہادی البحرا نے خبر رساں ادارے العربیہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ’شام کے تاریک دور‘ کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
انھوں نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ دمشق میں صورتحال محفوظ ہے اور کہا کہ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک پیغام میں ہادی البحرا نے کا کہنا تھا کہ وہ تمام افراد جو کسی دوسرے شہری کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے اور اپنے گھروں میں رہیں گے، بنا کسی فرقہ وارانہ یا مذہبی تفریق کے وہ محفوظ ہیں۔
شام میں اسد خاندان کا 50 سالہ دورِ اقتدار ختم
شام میں حکومت مخالف عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دمشق میں داخل ہو گئے ہیں اور ملک بھر میں پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اور بظاہر اسد خاندان کے پچاس سالہ دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
اسد خاندان شام میں پچاس برس سے زائد عرصے تک برسر اقتدار رہا۔ 1971 میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد نے اس وقت کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئے۔
حافظ الاسد سن دوہزار میں اپنی موت تک اقتدار میں رہے۔ وہ 19 برس تک شام کے صدر رہے۔
حافظ الاسد کی موت کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا۔ باپ بیٹے نے مشترکہ طور پر 54 برس سے زائد شام پر حکومت کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دمشق میں گولیاں چلنے اور دھماکے سنے جانے کی بھی اطلاعات ہیں جبکہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور جشن میں نعرے بازی بھی کر رہے ہیں، اس حوالے سے شامی باغی گروہ کا کہنا ہے جشن کے دوران ہوائی فائرنگ کی اجازت نہیں ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کا بتانا ہے کہ عوام کی جانب سے امیہ اسکوائر پر جشن منایا گیا شہری شامی فوج کے ٹینکوں پر چڑھ گئے، دمشق میں باغی ملیشیا کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، دمشق کے قریب جیل سے ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔
بشارالاسد کی حکومت اتنا جلدی کیسے گر گئی؟
شام میں اپوزیشن فورسز نے صدر بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا۔ جنگجو دمشق میں داخل ہوگئے۔
بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت محض چند دنوں میں گر گئی لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں اور اس کے پیچھے کئی عوامل شامل ہیں۔
میلبرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پولیٹیکل تجزیہ کار دارا کونڈئیٹ کہتی ہیں کہ سالوں سے جاری جنگ نے بشارالاسد کی فوج کو بہت کمزور کر دیا ہے۔
برطانوی نشریاتی اداے کے مطابق دارا کونڈئیٹ نے کہا کہ بشارالاسد کے اتحادی روس، ایران اور حزب اللہ سب ہی اپنے اپنے تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق بشارالاسد کی پوزیشن کافی کمزور ہے تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اس سب کے باوجود جتنی جلدی یہ سب ہوا ہے وہ بہت حیران کن ہے۔
شام کے تیسرے بڑے شہر حمص پر باغیوں کے قبضے کے کچھ ہی دیر بعد اطلاع آئی کہ بشارالاسد مخالف فورسز دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئی ہیں اور صدر ایک طیارے میں دمشق سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔
شام میں 13 برس بعد بغاوت کامیاب، بشار الاسد ملک چھوڑ کر بھاگ گئے
شام میں تیرہ برس بعد بغاوت کامیاب ہوگئی ۔ بشار الاسد ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ اپوزیشن فورسز نے دمشق کا کنٹرول سنبھال لیا ۔ مرکزی جیل سے ہزاروں قیدی رہا ۔ صدارتی محل کا کنٹرول بھی اپوزیشن فورسز نے حاصل کر لیا ۔ باغی کمانڈروں نے سرکاری ٹی وی پر عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی ۔ اقتدار کی منتقلی تک وزیر اعظم کو عہدے پر برقرار رکھنے کا اعلان کردیا
عالمی خبررساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد دمشق سے فرار ہوگئے۔ شام کے صدر بشار الاسد دمشق میں نہیں ہیں۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو عمارتوں کاکنٹرول باغیوں کے پاس ہے، باغیوں کوکسی مزاحمت کا سامنا نہیں۔
شامی مسلح اپوزیشن کا کہنا ہے کہ دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا ہے، دمشق اب بشارالاسد سے آزاد ہوچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق باغی فورسز کے پاس بشارالاسد کے مقام کے بارے میں کوئی ٹھوس انٹیلی جنس رپورٹ نہیں ہیں اور وہ انہیں تلاش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب شامی صدارتی محل نے کہا ہے کہ صدر ملک میں ہی ہیں تاہم ذرائع نے بتایا ہے کہ شامی صدر دمشق میں کسی بھی ایسے مقام پر نہیں ہیں جہاں ان کے ہونے کی توقع ہو۔
صدارتی محل سے جاری بیان میں شامی وزیراعظم نے کہا کہ اپنے گھر میں ہوں کہیں جانے کا ارادہ نہیں رکھتا، چاہتا ہوں عوامی ادارے کام کرتے رہیں، سب سے اپیل کرتا ہوں ملک کے بارے میں سوچیں۔
عرب میڈیا کا یہ بھی کہنا ہےکہ شامی اسٹیک ہولڈرز نے بشارالاسدکے اقتدار کے خاتمے کے بعدکا پلان تیار کرلیا ہے۔ مجوزہ پلان کے مطابق بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد عبوری حکومت تشکیل دی جائےگی، عبوری حکومت 9 ماہ کے اندر صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے کی پابند ہوگی۔
سرکاری ادارے سابق وزیراعظم کی زیرنگرانی رہیں گے
حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ دمشق میں حزب اختلاف کی تمام فورسز کو سرکاری اداروں پر قبضہ کرنے سے روک دیا گیا ہے، جو سرکاری طور پر ان کے حوالے کیے جانے تک سابق وزیر اعظم کی نگرانی میں رہیں گے۔ ابو محمد الجولانی نے ایک بیان میں مزید کہا کہ جشن منانے کے لیے فائرنگ کرنا بھی ممنوع ہے۔
اس سے قبل الاسد کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ ریاستی اداروں کی نگرانی کے لیے دمشق میں رہیں گے۔
شام کی صورتحال بین الاقوامی سلامتی کیلئے خطرناک قرار
قطر،سعودی عرب،اردن،مصر،عراق،ایران، ترکیے اور روس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اوربین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
قطر میں ہونے والے دوحہ فورم کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا جس میں شام میں فوجی آپریشنز روکنے اور شہریوں کی حفاظت کے لیے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق روسی وزیرخارجہ نے کہا کہ باغی گروپ کے عسکری آپریشن کی منصوبہ بندی طویل عرصے پہلے کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ طاقت کا توازن بگاڑنے اور گراؤنڈ پر صورتحال تبدیل کرنے کی کوشش ہے، روس باغی گروہ کی پیش قدمی کی مخالفت کرےگا۔
دوحہ فورم کے مشترکہ اعلامیے میں قطر،سعودی عرب،اردن،مصر،عراق،ایران، ترکیے اور روس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اوربین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
باغیوں نے شام کے وسطی شہر حمص پر قبضہ کر لیا، دمشق کی جانب پیش قدمی جاری
باغیوں نے شام کے وسطی شہر حمص پر قبضہ کر لیاہے اور دارالحکومت دمشق کی جانب پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ دمشق کے دیہی علاقے اربین سے سرکاری فوجیں پیچھے ہٹ گئیں جبکہ حمص سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہر چھوڑ کر جانا شروع ہو گئے ہیں ، ۔
تفصیلات کے مطابق اس بغاوت کی قیادت تحریر الشام گروپ،یا ایچ ٹی ایس کر رہا ہے۔ اس نے حمص اور دارالحکومت دمشق کی طرف مارچ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اربین دمشق سے صرف 15 منٹ کی دوری پر ہے۔ دمشق میں جنرل اسٹاف اور ایئر کمانڈ کی عمارتوں کو خالی کروانے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں ۔
شام کی صورت حال حیران کن انداز میں تبدیل ہو رہی ہے۔ باغیوں نے ایک ہفتہ قبل اپنی پیش رفت کا آغاز کیا تھا اور شمال کے ایک اہم شہر حلب پر قابض ہو گئے تھے۔ انہیں حلب میں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک دن قبل ، جنگجوؤں نے شام کے چوتھے بڑے شہر حما پر قبضہ کیا تھا، جس پر ردعمل میں سرکاری فوج نے کہا تھا کہ وہ شہر کے اندر لڑائی سے بچنے اور شہریوں کی جان بچانے کے لیے پیچھے ہٹ گئی تھی۔ حمص صدر بشارالاسد کے حامیوں کا شہر ہے۔ اس شہر کو اسد کی حمایت کے مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تاہم جمعے کے روز نظر آنے والے مناظر بہت مختلف تھے۔ شہر سے نکلنے والی شاہراہوں اور سڑکوں پر لوگوں سے بھری ہوئی گاڑیوں کا رش تھا اور اکثر مقامات پر ٹریفک جام تھی۔ یہ لوگ باغیوں کے قابض ہونے کے خدشے کے پیش نظر اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جا رہے تھے۔
حمص رقبے کے لحاظ سے شام کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی سرحدیں لبنان، عراق اور اردن سے ملتی ہیں۔
شام کی حکومت پر متعدد اطراف سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ حکومت مخالف گروپوں کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے جنوبی صوبے سویدا میں سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں اور فوج کی پوزیشنوں پر دھاوا بولا ہے۔
دفترخارجہ نے شام کی صورتحال پر پاکستانیوں کیلئے ایڈوائزری جاری کر دی
دفتر خارجہ نے شام کی صورتحال پر پاکستانیوں کیلئے ایڈوائزری جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شام کی صورتحال کے پیش نظر پاکستانی شہری غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیاہے کہ شام میں امن وامان کی صورتحال کی بہتری تک ہدایات پر عملدرآمد کیا جائے، شام میں موجود پاکستانی شہری اپنے دمشق سفارتخانہ سے قریبی رابطہ رکھیں۔
دفتر خارجہ کی جانب سے متعلقہ سفارتخانوں کے نمبرز بھی جاری کر دیئے گئے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :
دمشق میں پاکستانی سفارتخانے کارابطہ نمبر+963 987 127
پاکستانی سفارتخانہ کاواٹس ایپ نمبر+963 990 138 972
سفارتخانہ کاای امیل ایڈریسparepdamascus@mofa.gov.ok
شام میں حکومت مخالف جنگجوؤں نے حلب شہر کا کنڑول سنبھال لیا
شام میں حکومت مخالف جنگجوؤں حلب شہر میں داخل ہوگئے۔
باغیوں نےحلب شہرکے قلب کا کنٹرول سنبھال لیا، ایران کی حمایت یافتہ افواج کی کمی نے شامی باغیوں کو کامیابی دلوائی،ایئرپورٹ پر راکٹوں سے حملہ کیا جس کے بعد ہوائی اڈے کو تمام پروازوں کےلیےبند کر دیا گیا۔
شامی باغیوں نےحکومت کے زیر قبضہ متعدد قصبوں اور دیہاتوں کی جانب پیش قدمی شروع کردی، حلب کے علاوہ ادلب میں بھی باغیوں نے کئی مقامات پرقبضہ کرلیا،باغیوں اور حکومت کی لڑائی میں 25 سویلین سمیت 260 افراد ہلاک ہوگئے۔
بشار الاسد نے روس سے مدد مانگ لی۔ روسی فوج نے بھاری ہتھیارحمیمیم ایئربیس پہنچانا شروع کردیے۔ حلب کے گرد و نواح میں پچھلے کئی روز سے شدید لڑائی جاری تھی۔