Live Updates: بجٹ 2024-25 ،تنخواہوں میں اضافہ، خالی اسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ
Live Updates: بجٹ 2024-25 ،تنخواہوں میں اضافہ، خالی اسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ
تنخواہوں میں 25 فیصد اور پنشن میں 15 فیصد اضافے، پٹرولیم مصنوعات پر لیوی ٹیکس بڑھانے کی تجویز
2024-06-11 13:53:10
بجٹ 2024-25 ،تنخواہوں میں اضافہ، خالی اسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ
وفاقی حکومت نے 18 ہزار ارب سے زائد کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس میں 8 ہزار ارب سے زائد خسارے کا سامنا ہے تاہم حکومت نے بجٹ 2024-25 میں گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ جبکہ 17 سے 22 تک افسران کی تنخواہوں میں 20 سے 22 فیصد تک اور پنشن میں 15 فیصد اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔ کم سے کم تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ حکومت نے پیٹرول پر ڈویلپمنٹ لیوی 60 روپے سے بڑھا کر 80 روپے کرنے کی تجویزدی ہے۔ جبکہ مٹی کے تیل پر پی ڈی ایل 50 روپے فی لیٹر برقرار رکھنے کی تجویزہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اور معاشی چیلنجز کے باوجود گزشتہ ایک سال کے دوران معاشی میدان میں پیشرفت مستحکم اور اطمینان بخش رہی ہے ، قدر نے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے کا موقع فراہم کیاہے ، معزز اراکین سے التماس ہے کہ اراکین حکومت کی کاوشوں میں تعاون کروں ۔کچھ عرصہ قبل معیشت کو مشکل کا سامنا تھا، سٹیٹ بینک کے پاس پیسے کم تھی، اقتصادی ترقی صفر کے قریب تھے ،افراط زر اس سطح پر پہنچ گیا تھا کہ لو گ تیزی سے غربت کی لکیر سے نیچے جارہے تھے ، پچھلے سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اختتام تک پہنچا، نئے پروگرام پر غیر یقینی کیفیت تھی، نئے پروگرام میں تاخیر مشکلات پیدا کر سکتی تھیں ، مجھے شہبازشریف کی گزشتہ حکومت کی تعریف کرنی ہو گی جس نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا ، پروگرام کے تحت معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوئی ۔
جناب سپیکر گزشتہ چند مہینوں میں مسلسل کاوشوں کے نتائج تسلی دیتے ہیں کہ ہم صحیح سمت میں گامزن ہیں ،مہنگائی کم ہو کر تقریبا 12 فیصدپر آ گئی ہے ، اشیائے خور دونوش عوام کے پہنچ میں ہیں، چیلنجز کوسامنے رکھیں تو یہ معمولی کامیابی نہیں ہے ، ، آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید کم ہو گی ، زرمبادلہ کی شرح مستحکم رہی ہے ، سرمایہ کار معیشت کے متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں، شرح سود میں کمی کا اعلان اور مہنگائی پر قابو پانے کی کوششیں ثبوت ہیں ۔اتحادی حکومت مبارک باد کی مستحق ہے ۔
گزشتہ سال میں حاصل ہونے والی کامیابیاں معمولی ہیں ، ملک بحرانی صورت سے نکل چکا ہے ، ترقی کا آغاز ہو چکاہے ثمرات عوام تک پہنچیں گے ۔ضرورت یہ ہے کہ ہم ترقی کی رفتار کو تیز کریں اور معاشی خود انحصاری کی منزل کو حاصل کر یں ، اسے رات و رات حاصل نہیں کر سکتے ، اسے عوام سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان جلد ہی خوشحال ہو گا، ہر کوئی واقف ہے کہ راستہ مشکل ہے ، آپشنز کم ہیں ، یہ اصلاحات کا وقت ہے ،اپنی معیشت میں پرائیویٹ سیکٹر کو مرکزی اہمیت دیں اور چند افراد کی بجائےعوام کو اپنی ترجیح بنائیں ۔
ماضی میں ریاست پر غیر ضروری ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا گیا ، جس کی وجہ سے حکومتی اخڑاجات ناقابل برداشت ہو گئے ، اس کا خمیازہ مہنگائی، کم پیدواری صلاحیت، کم آمدن والی ملازمتوں کی صورت میں عوام کو بھگتنا پڑتاہے ، اس سے باہر آنے کیلئے سٹرکچل ریفارمز کو آگے بڑھانا اور معیشت میں انسنٹیوز کو درست کرنا ہو گا۔ ہماری معاشی نظام کو عالمی معیشت کے ساتھ چلتے ہوئے برآمداد کو فروغ دینا ہوگا۔
معاشی نظام میں تبدیلیاں لاتے ہوئے ہم جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے ،مارڈن اکنا میز کی طرح ہمیں بھی وسیع پیمانے پر نجکاری اور اصلاحات کرنا ہوں گی۔ پیداواری صلاحیت میں بہتری لانے کیلئے اندرون ملک اور بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی ۔۔
توانائی کی قیمت کم کرنے کیلئے پاور سیکٹر میں مارکیٹ پر مبنی اصلاحات کی ضرورت ہے ، سکل ڈویلپمنٹ کے موثر نظام کی ضرورت ہے ، حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ایسٹنڈڈ فنڈ فسیلیٹی پر بات کر رہی ہے ۔
ایک سال قبل مہنگائی 38 فیصد تک پہنچ گیا تھا ، فوڈ انفلیشن 48 فیصڈ تھی، کم آمد طبقے کو مشکلا ت تھیں، مہنگائی میں نمایاں کمی آئی ، مئی 2024 کنزیومر پرائس انڈیکس 11.8 فیصد تھا فوڈ انفلیشن صرف 2.2 فیصد تھی ، حکومت نے مہنگائی کو کم کرنے کیلئے انتھک کوششیں کی ہیں ۔
خالی سرکاری اسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ
جیسے کہ پہلے ذکر کیا جا چکاہے کہ حکومتی اخراجات میں کمی مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی حکمت عملی کا دوسرا اہم ستون ہے ، ہم غیر ضروری اخراجات کم کر رہے ہیں، پنشن کے نظام میں اصلاحات لارہی ہے ، وفاقی حکومت کی تما م خالی اسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز ہے ، جس سے 45 ارب روپے کی بچت ہونے کاامکان ہے ، وفاقی حکومت کے حجم اور وسائل کے ضیاع کو کم کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ڈھانچے کا جائزہ لے گی اور اڑھائی میں اپنی سفارشات پیش کرے گی، حکومت نے پی ڈبلیو ڈی کے محکمے کو بند کرنے کا اعلان کر دیاہے ۔
اوورسیز پاکستانیوں کیلئے محسن پاکستان کا ایوارڈ
بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے محسن پاکستان ایوارڈ متعارف کرایاجارہاہے،ترسیلات زرکیلئے86.9ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے،اوورسیز پاکستانیوں کیلئے متعدد سہولیات متعارف کرارہے ہیں ۔
طلبہ کیلئے پنک بس سروس
طلبہ کے دیہی اور شہری سفرکیلئے پنک بس سروس شروع کی جارہی ہے،غریب طلباکو معیاری تعلیم تک رسائی کیلئےاسکیم متعارف کرائی جارہی ہے،ای لائبرریاں قائم کی جائیں گی،اسکولوں کواسمارٹ اسکرین اورانٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرینگے،بچوں کی تعلیم کیلئےحکومت سرمایہ کاری کاارادہ رکھتی ہے،حکومت ڈیجیٹل نیشنل کمیشن اور ڈیجیٹل اتھارٹی بنانےکاارادہ رکھتی ہے،بچوں کی تعلیم کیلئےحکومت سرمایہ کاری کاارادہ رکھتی ہے،حکومت ڈیجیٹل نیشنل کمشین اور ڈیجیٹل اتھارٹی بنانےکاارادہ رکھتی ہے۔
آئی ٹی سیکٹر
آئی ٹی سیکٹرکیلئے79ارب روپے رکھے جارہےہیں،پاکستان سوفٹ ویئربورڈکیلئے2ارب روپےرکھنےکی تجویزہے،کراچی میں آئی ٹی پارک کےقیام کیلئے8ارب روپے رکھےجائیں گے،اس سال آئی ٹی برآمدات ساڑھے3ارب ڈالرتک پہنچ جائیں گی،حکومت آئی ٹی شعبے پر خصوصی توجہ دےگی،
آبی وسائل
دیامربھاشاڈیم کیلئے40ارب روپے رکھےگئےہیں،آبی وسائل کیلئے206ارب روپے مختص کئے،این ڈی سی میں بہتری کیلئے11ارب روپے رکھنےکی تجویز،بجلی کی پیداوارونڈ،سولرپرمنتقلی کیلئےاقدامات کئےجارہےہیں،9ڈسکوز،جنکوزکی نجکاری کا منصوبہ ہے،بجلی چوری کیخلاف اقدامات سے50ارب روپےکی بچت ہوگی،بجلی کی صورتحال بہتربنانےکیلئےاقدامات کئےگئے،توانائی شعبےمیں گردشی قرضہ ناقابل برداشت ہوچکا۔
توانائی
توانائی کے شعبے کیلئے ترقیاتی بجٹ میں 253 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے ، اس شعبے کے اہم منصوبوں کیلئے 65 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے ۔جامشورو میں 1200 میگاواٹ کول پاور پلانٹ کیلئے 21 ارب، این ٹی ڈی سی کے سسٹمز میں بہتری کیلئے 11 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے ۔
توانا ئی کا شعبہ گردشی قرضوں کے چیلنج سے دوچار ہے ، یہ قرض اب ناقابل برداشت ہو چکا ہے ، پاور سیکٹر کی پیچیدگیوں کا حل بلاشبہ مشکل ہے ، کیونکہ بجلی پیدا کرنے سے لے کر ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن تک ہر سطح کی اپنی ڈائنامکس ہیں اور ہر سطح پر مشکلات پائی جاتی ہیں، میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ حکومت اس شعبے میں کور س کوریکشن اور ان مشکلات کو حل کرنے کیلئے کبھی اتنی پر عزم نہیں تھی، موجودہ مالی سال کے دوران بجلی کی تقسیم کو بہتر بنانے کیلئے کئی اقدامات کیئے گئے ، اور ان اقدامات کے نتیجے میں ہمیں امید ہے کہ سال کے اختتام تک سرکولر ڈیبٹ سٹاک میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا، بجلی چوری کے خلاف مہم ہمیں پچاس ارب روپے کی بچت ہوئی ، اگلے سال چند اصلاحات درج ذیل ہیں ۔
نقصانات کو کم کرنے کیلئے ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن کارکردگی کو بہتر کرنا ہو گا، 9 ڈسکوز اور جینکوز کی نجکاری کو تیز کرنے کا منصوبہ ہے ۔
تنخواہیں اور پنشن
گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہ میں 25 فیصد اضافہ اور گریڈ 17 سے 22 تک افسران کی تنخواہ میں 22 فیصد اضافے کی تجویز ہے ،ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 15 فیصد اضافے کی تجویز ، کم از کم ماہانہ تنخواہ 32 سے بڑھا کر 37 ہزار کرنے کی تجویز ہے، مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ مہنگائی سے خاص طور پر متاثر ہوا ہے، مالی مشکلات کے باوجود سرکاری ملازمین کی ریلیف کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔
17 ترقیاتی منصوبے
نئےبجٹ میں 17 اہم ترین ترقیاتی منصوبےشامل کیئے گئے ہیں ،ہیپاٹائٹس کےخاتمےکیلئے 5 ارب روپے ،قائداعظم ہیلتھ ٹاوراسلام آباد کیلئے5 ارب روپے ،غریب ترین اضلاع میں ترقیاتی کاموں کیلئے 7 ارب روپے ، قراقرم ہائی وےتھاکوٹ کےمنصوبےکیلئے 6 ارب رکھےگئے ہیں ۔ملکی معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنےکیلئے 4 ارب ، اسلام آباد میں دانش سکول کیلئے2ارب ، آزادکشمیراورگلگت بلتستان میں 7 دانش سکولزکیلئے 5 ارب مختص کیئے گئے ہیں ۔
جینکوون جامشورومیں 600 میگاواٹ پاورپلانٹ کیلئے 21 ارب ، لاہور نارتھ میں 500 کے وی کی لائن بچھانےکیلئے 14ارب ، کراچی کوسٹل پاور پراجیکٹ یونٹ ون اورٹوکیلئے 18 ارب ، مہمند ڈیم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کیلئے 45 ارب مختص کردئیےگئے۔
گاڑیاں ،موبائل فونز پر سیلز ٹیکس
سیلزٹیکس کی چھوٹ اوررعایتی شرح اوراستثنیٰ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے ، متعدد اشیا پرسیلز ٹیکس کا اسٹینڈرڈ ریٹ عائد کرنےکا فیصلہ کیا گیاہے ، موبائلز فونرکی مختلف کیٹگریز پر 18 فیصد سیلزٹیکس لگےگا، تانبے،کوئلے،کاغذاورپلاسٹک کےاسکریپ پرودہولڈنگ ٹیکس لگانے، درآمدی لگژری گاڑیوں کی درآمد پرٹیکس چھوٹ ختم کرنے ، 50ہزار ڈالرمالیت کی درآمدی گاڑی ٹیکسز اورڈیوٹیزبڑھانے ، شیشےکی درآمدی مصنوعات پردرآمدی ڈیوٹی کوختم کرنے ، سٹیل اورکاغذ کی مصنوعات کی درآمدی ڈیوٹیزکی شرح بڑھانے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔
سیلزٹیکس کی چھوٹ اوررعایتی شرح اوراستثنیٰ ختم کرنے ، متعدداشیا پرسیلز ٹیکس کا اسٹینڈرڈ ریٹ عائد کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
پرسنل انکم ٹیکس
ایف بی آر نے 2019 سے 2023 تک کو رپوریٹ انکم ٹیکس اصلاحات نافذ کیں، اب پرسنل انکم ٹیکس اصلاحات لاگو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پرسنل انکم ٹیکس کی شرح کو بین الاقوامی معیار کے مطابق کیا جا سکے ۔ اس ضمن میں انکم ٹیکس چھوٹ چھ لاکھ روپے تک کی آمدن پر برقرار رکھنے کی تجویز ہے اور یہ بھی تجویز ہے کہ تنخواہ دار طبقے میں maximum tax slab میں اضافہ نہ کیا جائے ، جبکہ ٹیکس سلیب میں کچھ ردو بدل تجویز کیا جارہاہے ، تاہم غیر تنخواہ دار افراد کی زیادہ سے زیادہ ٹیکس شرح 45 فیصد رکھنے کی تجویز ہے ۔
گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی انجن کیپسیٹی کے بجائے گاڑی کی قیمت کی بنیاد پر تبدیل کرنا
موجودہ قانون کے تحت 2 ہزار سی سی تک گاڑیوں کی خرداری اور رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی انجن کیپسیٹی کی بنیاد پر کی جاتی ہے ، گاڑیوں کی قیمت میں کافی اضافہ ہو چکا ہے ، اس لیے ٹیکس کی اصل پوٹینشل سے فائدہ اٹھانے کیلئے یہ تجویز دی جارہی ہے کہ تمام موٹر گاڑیوں کیلئے ٹیکس وصولی کی بنیاد پر انجن کیپسیٹی سے تبدیل کر کے قیمت کے تناسب پر کر دیا جائے ۔
دفاعی بجٹ
وزیر خزانہ نے کہاکہ آئندہ مالی سال میں دفاعی اخراجات کے لیے 2 ہزار 122 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 75 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھانے کی تجویز
حکومت نے پیٹرول پر ڈویلپمنٹ لیوی 60 روپے سے بڑھا کر 80 روپے کرنے کی تجویزدی ہے۔ جبکہ مٹی کے تیل پر پی ڈی ایل 50 روپے فی لیٹر برقرار رکھنے کی تجویزہے۔
اسی طرح لائٹ ڈیزل آئل پر لیوی 50 سے بڑھا کر 75 کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
سگریٹس
جعلی اسگریٹس فروخت کرنے والوں کو سخت سزائیں دینےکافیصلہ کیا گیاہے ، جعلی اسگریٹس فروخت کرنے والی دکانوں کو سیل کر دیا جائےگا، سگریٹس فلٹرکی پیداوارمیں استعمال مٹیریل پر44ہزارروپےفی کلوٹیکس کا فیصلہ کیا گیاہے ۔
سیمنٹ انڈسٹری
سیمنٹ پر ایف ای ڈی کی شرح میں اضافےکا فیصلہ کیا گیا ہے ، سیمنٹ پرایف ای ڈی 2روپے کلو سے بڑھا کر3روپے کلوکردیا گیا۔
نئے پلاٹس پر ٹیکس
نئے پلاٹس اور رہائشی و کمرشل پراپرٹی پر نیا ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، نئے پلاٹس اور رہائشی و کمرشل پراپرٹی پر پانچ فیصدفیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ( ایف ای ڈی) عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
برانڈڈ کپڑوں پر ٹیکس
ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کے ٹیر ون کے ریٹیلرز پر جی ایس ٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔برانڈڈ کپڑوں اور جوتوں پر سیلز ٹیکس بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا ہے۔
کسان پیکج
کسان پیکج کیلئے5ارب روپے رکھنےکی تجویز ہے،وزیراعظم نے کسان پیکج کا اعلان کیاتھا،حکومت اسکلز ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز کرنےجارہی ہے،
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام
بی آئی ایس پی کے ذریعے لاکھوں خاندانوں کوامداد ملتی ہے،، بی آئی ایس پی کا بجٹ593ارب روپے کیاجائےگا۔ کفالت پروگرام سے استفادہ کرنے والے افراد کی تعداد کو 93 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کیا جائے گا۔ جبکہ تعلیمی وظائف میں مزید 10 لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا جس سے کل تعداد ایک کروڑ 4 لاکھ ہوجائے گی۔
ایئر پورٹس کی نجکاری کا اعلان
کراچی اور لاہور کے ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ بعد میں ہوگی،سب سے پہلے اسلام آباد ایئرپورٹ کو آؤٹ سورس کیاجائےگا،حکومت ملک کےبڑے ایئرپورٹس کوآؤٹ سورس کررہی ہے،اگست میں بڈز منگوالی جائیں گی،نجکاری کا معاملہ حل ہوگا،موجودہ حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری شروع کی،ہم نے نجکاری کو ترجیح بنایا ہے، وزیراعظم نجی شعبے کو فروغ دینےپرتوجہ دےرہےہیں،حکومتوں کو کاروبار نہیں کرناچاہیے۔
ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ کا خاتمہ
نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ہائی برڈ اور عام گاڑیوں کے درمیان قیمتوں میں بہت زیادہ فرق کی وجہ سے ہائی برڈ گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں 2013 میں رعایت دی گئی تھی ، اس وقت دونوں قسم کی گاڑیوں کی قیمتوں کے درمیان فرق کم ہو چکا ہے اور مقامی طور پر ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری شروع ہو چکی ہے ، اس لیے مقامی صنعت کو فروغ دینے کیلئے یہ رعایت اب واپس لی جارہی ہے ۔
سولر پینل انڈسٹری
برآمد کرنے اور مقامی ضروریات پوری کرنے کیلئے سولر پینلز تیار کرنے کی غرض سے پلانٹ، مشینری ، اور اس کے ساتھ منسلک آلات اور سولر پینلز ، انورٹرز اور بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال اور پرزہ جات کی درآمد پر رعایتیں دی جارہی ہیں تاکہ درآمد شدہ سولر پینلز پر انحصار کم کیا جا سکے اور قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے ۔
ای بائیکس اور پنکھے
حکومت ای بائیکس کیلئے چار ارب روپے اور توانائی کی بچت کرنے والے پنکھوں کیلئے دو ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں ۔
اہم نکات
مالی سال 2024-25 کیلئے اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے ، افراط زر کی اوسط شرح 12 فیصد متوقع ہے ، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد جبکہ پرائمری سر پلس جی ڈی پی کا 1.0 فیصد ہو گا ۔
ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 12 ہزار 970 ارب روپے ہے ، جوکہ رواں مالی سال سے 38 فیصد زیادہ ہے ، چنانچہ وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 7 ہزار 438 ارب روپے ہو گا ۔
وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 3 ہزار 587 ارب روپے ہو گا،
وفاقی حکومت کی خاصل آمدنی 9 ہزار 119 ارب روپے ہو گی۔
وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 18 ہزار 877 ارب روپے ہے جس میں 9 ہزار 775 ارب روپے انٹرسٹ کی ادائیگی کی جائے گی ۔
پی ایس ڈی پی کیلئے 1400 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے ، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے 100 ارب روپے اضافی مختص کیئے گئے ہیں، مجموعی ترقیاتی بجٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی 1500 ارب روپے ہو گا ۔
2 ہزار 122 ارب روپے دفاعی ضروریات کیلئے فراہم کیے جائیں گے اور سول انتظامیہ کے اخرجات کیلئے 839 ارب روپے مختص کیئے جارہے ہیں، پنشن کے اخراجات کیلئے 1014 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔ بجلی ، گیس اور دیگر شعبوں کیلئے سبسڈی کے طور پر ا1363 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے ۔
1777 ارب روپے پر مشتمل کل گرانٹس بنیادی طور پر بی آئی ایس پی ، اے جے کے ، گلگت بلتستان ، کے پی کے میں ضم ہونے والے اضلاع ایچ ای سی ، ریلوے ، ترسیلات زر اور آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دینے کیلئے مختص کی گئی ۔
بجٹ میں سرکاری ملازمین، پنشنرز، کسانوں اور فری لانسرز کو ریلیف ملنے کا امکان
نئے مالی سال 25ـ2024 کا بجٹ کل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ چھوٹے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو زیادہ ریلیف ملنے کا امکان ہے۔ بجلی 5 سے 7 روپے فی یونٹ مزید مہنگی ہوگی۔مہنگائی سرکاری ہدف12 فیصد سے بہت بڑھ جائے گی۔
دستاویزات کے مطابق 18 ہزار 900 ارب روپے کا نیا مجوزہ وفاقی بجٹ 9800 ارب روپے کے خسارے پر مبنی ہوگا۔ سرکاری خرچ پورے کرنے کے لیے مہنگائی اور اضافی ٹیکسز کا بوجھ عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔
نئے مالی سال متعدد ترقیاتی منصوبوں کا انحصار بیرونی فنڈنگ پر ہوگا، ترقیاتی منصوبوں کیلئے 932 ارب روپے قرض لینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ وفاقی حکومت 316 ، چاروں صوبے 616 ارب روپے بیرونی قرض لیں گے۔
سندھ حکومت سب سے زیادہ 334 ارب روپے کا بیرونی قرضہ لے گی، خیبر پختونخوا حکومت 131 ارب روپے کے بیرونی قرض پر انحصار کرے گی، پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 123
سیلزٹیکس کی مدمیں 2 ہزار 858 ارب ٹیکس چھوٹ دینےکاانکشاف
وفاقی حکومت 2024-25 کا بجٹ کل قومی اسمبلی میں پیش کرے گی تاہم قومی اقتصادی سروے 2024-25 میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، رواں مالی سال 3 ہزار 979 ارب روپےکی ٹیکس چھوٹ دی گئی، یہ چھوٹ انکم ٹیکس،سیلزٹیکس،کسٹمزڈیوٹی کی مدمیں دی گئی ۔
تفصیلات کے مطابق سیلزٹیکس کی مدمیں 2 ہزار 858 ارب اور کسٹمز ڈیوٹی کے تحت 543 ارب 52 کروڑکی ٹیکس چھوٹ دیئے جانے کا انکشاف بھی ہواہے ۔اقتصادی سروے کے مطابق انکم ٹیکس کی مد میں 476 ارب 96 کروڑ ، گاڑیوں کی صنعت سمیت بعض شعبوں کو 146 ارب 59 کروڑ کا استثنیٰ دیاگیا ، ٹیکس چھوٹ درآمدات، زیروریٹنگ، لوکل سپلائز پردی گئی، موبائل فونزپر 33 ارب روپےسےزیادہ کی ٹیکس چھوٹ دی گئی، فاٹا اورپاٹاکو بھی کسٹمزڈیوٹی کی مدمیں 78 ارب روپےٹیکس چھوٹ دی گئی۔ ارب روپے کا بیرونی قرضہ لیا جائے گا۔
18 ہزار 900 ارب روپے کا وفاقی بجٹ آج پیش ہوگا، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ متوقع
وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2025-2024 کا بجٹ آج پیش کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق آئندہ مالی سال 2025ـ2024 کیلئے 18 ہزار 900 ارب روپے کے حجم کا وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 سے 15 فیصد اضافے کا امکان ہے۔
دستاویزات کے مطابق وفاق کا بجٹ 1500 ارب روپے مختص کیا جائے گا جبکہ صوبوں کا سالانہ ترقیاتی منصوبہ 2095 ارب روپے مختص کیا جائے گا۔ حکومت نے آئندہ مالی سال میں ترقیاتی منصوبوں کیلیے 932 ارب روپے کے مزید نئے قرض لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت وفاقی حکومت 316 ارب جبکہ 600 ارب کے بیرونی قرض لیں گے۔ سندھ حکومت سب سے زیادہ 334 ارب روپے کا بیرونی قرض لے گی۔
جٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 12.9 ٹریلین روپے مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق بجٹ میں سود اور قرضوں کی ادائیگیوں کا تخمینہ 9.5 ٹریلین روپے لگایا گیا ہے، توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کیلیے 800 ارب روپے مختص کیے جانے اور وفاقی ٹیکس ریونیو 12.9 ٹریلین روپے کے لگ بھگ مقرر کئے جانے کا امکان ہے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ابتدائی تخمینہ 2100 ارب روپے لگایا گیا ہے اور پیٹرولیم لیوی کی مد میں 1050 ارب روپے سے زائد وصول کرنے کا ہدف متوقع ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں امپورٹڈ موبائل فون پر ٹیکس اور جی ایس ٹی مزید بڑھانے کی تجویز و سفارش کی گئی ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ میں 1012 ارب روپے کے اضافے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ ترقیاتی منصوبوں کیلیے 3792 ارب روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے۔
وفاقی بجٹ میں کس شعبے کیلئے کتنا بجٹ تجویز کیا گیا؟
آئندہ مالی سال 2025ـ2024 کیلئے 18 ہزار 900 ارب روپے کے حجم کا وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ نئے بجٹ میں بہت سے شعبوں سے ٹیکس چھوٹ واپس لی جائی گی۔ اضافی ٹیکسوں کی بھرمار سے سیکڑوں کی تعداد میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو آئندہ مالی سال ترقیاتی بجٹ کی مد میں 180 ارب روپے ملیں گے۔ ایوی ایشن کو سات ارب 30 کروڑ روپے کا ترقیاتی بجٹ دیا جائے گا۔ وزارت توانائی کو این ٹی ڈی سی اور پیپکو کیلئے 175 ارب روپے کا بجٹ مختص کرنے کی تجویز ہے۔
وزارت آبی وسائل کو ترقیاتی بجٹ کی مد میں 259 ارب روپے جاری کیے جائیں، آئندہ مالی سال ایوی ایشن کیلئے 7 ارب 30 کروڑ روپے ترقیاتی بجٹ کے تحت دیئے جائیں گے، بورڈ آف انویسٹمنٹ کو 1 ارب 65 کروڑ روپےترقیاتی منصوبوں کیلئے دیے جائیں گے۔
کابینہ ڈویژن کو 75 ارب 77 کروڑ، موسمیاتی تبدیلی ڈویژن کو 6 ارب 25 کروڑ روپے ملیں گے، کامرس ڈویژن کو 2 ارب 20 کروڑ روپے ترقیاتی منصوبوں کیلئے ملیں گے، ڈیفنس ڈویژن کو 5 ارب 63 کروڑ روپے ترقیاتی منصوبوں کیلئے فراہم کیے جائیں گے۔
فیڈرل ایجوکیشن و پروفیشنل ٹریننگ ڈویژن کو 25 ارب 75 کروڑ روپے دیئے جائیں گے، فنانس ڈویژن کو صوبوں اورخصوصی علاقوں کیلئے 226 ارب 91 کروڑ روپے بھی ملیں گے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے 66 ارب 31 کروڑ روپے پی ایس ڈی پی میں فراہم کیے جائیں گے۔
ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو آئندہ مالی سال 27 ارب 68 کروڑ روپے ترقیاتی منصوبوں کیلئے دیئے جائیں گے، انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام ڈویژن کیلئے 28 ارب 92 کروڑ روپے ترقیاتی بجٹ مختص کرنے کی تجویز ہے۔
بجٹ کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں معاملات طے
بجٹ کے حوالے سے وفاقی حکومت میں شامل اہم اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں معاملات طے پاگئے۔ پیپلز پارٹی تحفظات کے باوجود بجٹ کے حق میں ووٹ دے گی۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ، پیپلز پارٹی میں معاملات دونوں پارٹیوں کی قیادت کی سطح پر طے پائے، پیپلز پارٹی بجٹ پاس کرانے میں حکومت کی بھرپور حمایت کرے گی۔
پیپلز پارٹی تحفظات کے باوجود بجٹ کے حق میں ووٹ دے گی، پیپلز پارٹی پارلیمان میں احتجاج و تقاریر کے باوجود بجٹ پاس کرائے گی۔ حکومت نے پیپلزپارٹی کی بعض تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنانے کی یقین دہانی کرادی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز صدر آصف زرداری سے وزیراعظم کی ملاقات کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی، رات گئے بلاول بھٹو زرداری نے بھی پارٹی قیادت سے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا۔
واضح رہے کہ آئندہ مالی سال 2025ـ2024 کیلئے 18 ہزار 900 ارب روپے کے حجم کا وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ نئے بجٹ میں بہت سے شعبوں سے ٹیکس چھوٹ واپس لی جائی گی۔ اضافی ٹیکسوں کی بھرمار سے سیکڑوں کی تعداد میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ نئے بجٹ میں دو ہزار ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔
بجٹ کے بعد کون کون سی چیزیں مہنگی ہوں گی؟
آئندہ مالی سال 2025ـ2024 کیلئے 18 ہزار 900 ارب روپے کے حجم کا وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
نئے بجٹ میں بہت سے شعبوں سے ٹیکس چھوٹ واپس لی جائی گی۔ اضافی ٹیکسوں کی بھرمار سے سیکڑوں کی تعداد میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ نئے بجٹ میں دو ہزار ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔
پرانی درآمدی گاڑیاں، درآمدی موبائل فون، درآمدی خوراک، چاکلیٹ، دودھ، دہی، کپڑے، صابن، شیمپو، ہیئر کلر، میک اپ، پرفیومز اور لوشن سمیت دیگر کئی اشیاء مہنگی ہوسکتی ہیں۔ امپورٹڈ دودھ ،کپڑے بھی مہنگے ہوسکتے ہیں۔
بجٹ 2025-24: اگلے مالی سال کےلیے اہم معاشی اہداف کا تعین
بجٹ 2025-24 میں اگلے مالی سال کےلیے اہم معاشی اہداف کا تعین کرلیا گیا۔
دستاویزات کے مطابق اگلے مالی سال جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کرلیا گیا۔ نئے بجٹ میں مہنگائی کا ہدف 12 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔
اگلے سال فی کس آمدنی کا ہدف 5 لاکھ 43 ہزار 968 روپے ہے، زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 2 فیصد مقرر، بڑی اور اہم فصلوں کی پیداوار منفی 4.5 فیصد رہنے کا خدشہ ہے۔ دیگر فصلوں کا پیداواری گروتھ ٹارگٹ 4.3 فیصد طے کر دیا گیا۔
اگلے سال صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 4.4 فیصد ہے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کا ہدف 3.5 فیصد طے کر دیا گیا، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کا گروتھ ٹارگٹ 8.2 فیصد مقرر کردیا گیا۔
خدمات کے شعبے کی ترقی کا ہدف 4.1 فیصد ہے، ہول سیل اور ری ٹیل سیکٹر کا گروتھ ٹارگٹ 4.1 فیصد جبکہ نئے بجٹ میں ملکی برآمدات کا ہدف 40 ارب 51 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2024-25 میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کیلیے عمر کی حد بڑھا کر62 سال کرنے اور قومی خزانے پر پنشن بل کا بوجھ کم کرنے کیلیے جامع پنشن اصلاحات متعارف کروانے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق 18 ہزار 900 ارب روپے کا نیا مجوزہ وفاقی بجٹ 9800 ارب روپے کے خسارے پر مبنی ہوگا۔ سرکاری خرچ پورے کرنے کے لیے مہنگائی اور اضافی ٹیکسز کا بوجھ عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔
نئے مالی سال متعدد ترقیاتی منصوبوں کا انحصار بیرونی فنڈنگ پر ہوگا، ترقیاتی منصوبوں کیلئے 932 ارب روپے قرض لینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ وفاقی حکومت 316 ، چاروں صوبے 616 ارب روپے بیرونی قرض لیں گے۔
آئندہ مالی سال میں شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد، صنعتی ترقی کا ہدف4.4فیصد، زرعی ترقی2 فیصد رکھنے کی منظوری کا امکان ہے۔ برآمدات کا ٹارگٹ40.5 ارب ڈالر، درآمدات68.1ارب ڈالر رکھنے کی تجویز ہے۔
آئندہ مالی سال انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے ترقیاتی بجٹ میں 27ارب 43 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے ترقیاتی بجٹ کا ترقیاتی بجٹ 21 ارب روپے سے زائد اضافے کے ساتھ 27 ارب 43 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ رواں مالی سال آئی ٹی ٹیلی کام کا ترقیاتی بجٹ 6 ارب روپے تھا۔
شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقرر
آئندہ مالی سال میں شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد، صنعتی ترقی کا ہدف4.4فیصد، زرعی ترقی2 فیصد رکھنے کی منظوری کا امکان ہے۔ برآمدات کا ٹارگٹ40.5 ارب ڈالر، درآمدات68.1ارب ڈالر رکھنے کی تجویز ہے۔
دستاویز کے مطابق 827 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ، توانائی کیلئے 253ارب مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ مواصلات کیلئے 279ارب، تعلیم کا بجٹ93ارب رکھنے کی تجویز ہے۔ ضم شدہ اضلاع کو64ارب، آزاد کشمیر وگلگت بلتستان کو 75ارب ملیں گے۔
آئی ٹی و ٹیلی کام سیکٹر اولین ترجیح
آئندہ مالی سال انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے ترقیاتی بجٹ میں 27ارب 43 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے ترقیاتی بجٹ کا ترقیاتی بجٹ 21 ارب روپے سے زائد اضافے کے ساتھ 27 ارب 43 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ رواں مالی سال آئی ٹی ٹیلی کام کا ترقیاتی بجٹ 6 ارب روپے تھا۔
پرانے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 21 ارب جبکہ نئے منصوبوں کیلئے 6 ارب 28 کروڑ مختص کرنے کی تجویز ہے، ڈیجیٹل اکانومی میں اضافے کے منصوبے پر ساڑھے 3 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ ڈیجیٹل اکانومی کا منصوبہ عالمی بینک کی فنڈنگ سے مکمل کیا جائے گا۔
آئی ٹی انڈسٹری میں جدت لانے کے منصوبہ کیلئے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں، اس منصوبہ پر مجموعی طور پر9 ارب 95کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ قومی اسمبلی کی ڈیجیٹلائزئشن کے 40 کروڑ روپے کے منصوبے کیلئے 5 کروڑ رکھے گئے ہیں، قومی اسمبلی کے براڈکاسٹ سسٹم کی اپ گریڈیشن کے منصوبہ پر 5 کروڑ خرچ ہوں گے۔
تعلیم اور صحت کا بجٹ
تعلیم کے شعبے کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 32 ارب روپے، قومی صحت کے منصوبوں کیلئے 17 ارب روپے، انفراسٹرکچر کے وفاقی منصوبوں کیلئے 877 ارب روپے، انرجی سیکٹر کے وفاقی ترقیاتی منصوبوں کیلئے 378 ارب رکھنے کی تجویز ہے۔
نئے بجٹ میں چھوٹے کسان طبقے کیلئے مراعات کی تجویز زیر غور ہے، صنعتی شعبے کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 5 ارب 80 کروڑ مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 13ہزار ارب روپے مقرر کرنے کا امکان ہے۔
تنخواہوں میں 10 سے 15 فیصد تک اضافہ
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 سے 15 فیصد تک اضافہ متوقع ہے، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 10 سے 15 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ چھوٹے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو زیادہ ریلیف ملنے کا امکان ہے۔
وفاقی حکومت کا شعبہ تعلیم کے ترقیاتی بجٹ کم کرنے کے فیصلے پر نظرثانی
وفاقی حکومت نے شعبہ تعلیم کا ترقیاتی بجٹ کم کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کردی۔ تعلیم کے ترقیاتی بجٹ میں مزید اضافہ کردیا گیا۔
دستاویز کےمطابق نئے بجٹ میں تعلیمی شعبے کے لیے 93 ارب روپےبجٹ مختص کیا گیا ہے۔اس سے پہلےترقیاتی بجٹ 83 ارب سے کم کرکے 32 ارب کیا گیا تھا۔
نظرثانی شدہ پی اس ڈی پی کے تحت تعلیمی بجٹ میں 10 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا۔اعلٰی تعلیمی کمیشن کا بجٹ 4 ارب روپے اضافے سے 66 ارب تیس کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے۔
وفاقی وزارت تعلیم کا ترقیاتی بجٹ 32 ارب 80 کروڑ روپے رکھ دیا گیا۔ سائنس اور آئی ٹی کے شعبے کے ترقیاتی بجٹ میں پینتالیس ارب کا اضافہ کیا گیا۔سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے پی ایس ڈی پی میں اناسی ارب رکھے گئے ہیں۔
جعلی حکومت نے جعلی بجٹ پیش کیا، مکمل رد کرتے ہیں، عمر ایوب
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ جعلی حکومت نے جعلی بجٹ پیش کیا ہے جسے ہم مکمل رد کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2025ـ2024 کیلئے 18 ہزار 877 ارب روپے کے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کردیا ہے۔
بجٹ پر ردعمل دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا کہ میں نے اس ایوان میں 4 بجٹ پیش کئے، آج کا بجٹ معنی خیز نہیں ہوسکتا، نہ سی ڈی دی گئی نہ انگریزی میں لکھا پیش کیا گیا، آج اس پارلیمنٹ میں پہلی بار آئینی خلاف ورزی ہوئی، وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر شروع ہوتی ہے تو سارا ریکارڈ پیش کرنا ہوتا ہے۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ ملک کی درست گروتھ ریٹ نہیں ہے، پنجاب کے کسانوں کی گندم جل رہی ہے، محسن نقوی تو ٹیکس ریٹرن جمع ہی نہیں کراتے تھے، یہ کہتے ہیں صنعت کی پیداوار بڑھی ہے ، کون سی پیداوار ہوئی ہے۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ بجلی پچھلے ہفتے ساڑھے 3 روپے مہنگی ہوئی ہے، حکومت کی کسی سے کوئی مشاورت نہیں، ایران سے جو تیل آئے گا اس کے بدلے چاول سمگل ہو کر وہاں جائے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا ردعمل
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے بجٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان میں قانون سازی غیرآئینی طریقے سے ہوئی، الیکشن ہونے کے بعد ٹربیونلز کا قیام غیر آئینی ہے۔
بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ آج ایک فیصد گروتھ کے مطابق 18 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا، سیلز،ایکسائز، انکم ٹیکس میں تبدیلیاں کرتے ہیں، آپ نے ہمیں بجٹ کی کاپیاں کیوں نہیں دیں، 20 جون کو بجٹ کے متعلق اپنا کردار کیسے ادا کریں گے؟۔