تازہ ترین خبریں

عنوان: اپریل کے بچے حکومت لے گئی(حسنین نازش کی زبانی)

نازش امریکہ میں۔۔۔۔۔۔امریکہ ڈائری
قسط نمبر۔۔۔۔93
عنوان: اپریل کے بچے حکومت لے گئی

میں 7 مئی کی ڈائری بعنون مئی میں اپریل سے ملاقات۔۔،۔۔۔۔میں لکھ چکا ہوں کہ ہماری ایک مشترکہ شناسا دوست اپریل نامی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ 

 

اپریل ایک 32 سالہ خاتون ہے- وہ بے حد فربہ ہے- کوئی شخص اسے سر تا پا دیکھ کر سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ چلتی بھی ہوگی! گاڑی بھی چلا لیتی ہو گی! اور اپنے گھر کے باقی کام بھی انجام دیتی ہو گی! لیکن وہ مذکورہ تمام امور بطوراحسن انجام دیتی ہے-
اپریل کے تین بچے ہیں- تینوں لڑکے، ایک 11 سالہ دوسرا آٹھ سالہ اور تیسرا چھ سالہ- وہ اپنے ان تینوں بچوں کے ساتھنارتھ ہیمپٹن کے سٹیٹ شلٹر (پناہ گاہ) میں رہتی ہے-
ناکام شادی ذیابطس کا مرض قیامت خیز موٹاپہ اور پھر ستم یہ کہ محض سرکاری ایک ہزار ڈالر وظیفہ ملنے پر سارا مہینہ گزارنا ایک الگ عذاب۔
میرے دوست انٹونیو نے بتایا کہ اپریل گزشتہ تین دنوں سے " بے سٹیٹ ہسپتال " میں داخل ہے۔ مزکورہ ہسپتال میری اقامت گاہ سے محض دس پندرہ منٹ کی پیدل مسافت پر واقع ہے اور اس پر طرہ یہ کہ سارا دن فراغت ہی فراغت۔ اس لیے ہم دونوں نے اپریل کی تیمارداری کرنے کی ٹھانی۔ دونوں نے مریضہ کی من پسند سوفٹ ڈرنک، چپس اور دیگر اشیاء خریدیں اور ہسپتال ہو لیے۔
اپریل نمونیہ اور شدید ڈپریشن کے امراض کی شکایات لے کر ہسپتال داخل تھی۔ انٹونیو کو دیکھتے ہی اپریل نے پھوٹ پھوٹ کررونا شروع کردیا۔ ادھرانٹونیو اسے تسلی دیتا رہا۔ اس کی۔ہمت بندھاتا رہا۔
اپریل کا رونا تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لےرہا تھا۔ انٹونیو نے بڑی مشکل سے مریضہ کا رونا دھونا بند کروایااور اس لے یوں بے اختیار رونے کی وجہ پوچھی تو اپریل کے منہ سے صرف اتنا نکل سکا:
They have taken my children.
(وہ میرے بچے لے گئے ہیں۔)
"کون لے گِے ہیں ہیں" انٹونیو نے پوچھا۔
Department of Children and Families (DCF).
اسے جواب ملا۔
اب اپریل کو انٹونیو کے کندھے کی صورت میں ایک ایسا جادوئی کندھا مل چکا تھا جہاں وہ اپنا سر ٹیک کر نہ صرف آنسو بہا سکتی تھی بلکہ اپنے ڈپریشن کی وجوہ بھی بتا سکتی تھی۔
انٹونیو نے اس کی وجہ پوچھی تو اپریل نے بتایا:
" تم تو جانتے ہو کہ سنگل مدر ہوں۔ میرے شوہر کا نہ تو مجھ سے کوئی واسطہ ہے اور نہ بچوں سے کوئی رابطہ۔ ایک ہفتے پہلے میں فوڈ پینٹری سے سوفا سلف لے کر اپنی پناہ گاہ لوٹی تو کیا دیکھتی ہوں کہ تینوں بچے فحش فلم۔دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میں آپے سے باہر ہوگئی اور تینوں کے گالوں پر ایک ایک تھپڑ جڑ دیا۔ "وہ یہ سب ایک ہی سانس میں کہتی چلی گئی۔
"پھر کیا ہوا؟"اس دفعہ میں نے استفسار کیا۔
اپریل کو شاید پہلی بار ہسپتال کے وارڈ میں کسی تیسرے ذی نفس کی موجودگی کا احساس یوا۔ اس نے میتی طرف دیکھا اور پھر گویا ہوئی:
"بچوں نے Department of Children and Families (DCF) کے اہل کاروں سے میری شکایت کی۔ اہلکار نے ہفتہ بھر میرے گھر کی تلاشی لی۔ بچوں کے۔کمپیوٹر، موبائل اور ٹیبلیٹ چھانتے رہے۔ درجنوں شاید سینکڑوں سوال ان سے اور مجھ سے کیے۔ آخر کار وہ۔اس نتیجے پر پہنچے کی میں ان کی ماں ہوتے ہوئے بھی ان کی بہتر نشونما اور دیکھ بھال نہیں کر سکتی۔ اس لیے ان بچوں کے بہترمستقبل کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ڈی سی ایف کے زیر کفالت پرقان۔چڑھایا جائے تاکہ وہ مستقبل کے بہتر شہری بن سکیں۔"
اپریل نے ساری کہانی اختصار کے ساتھ سنادی۔ ساتھ ہی وہ مذکورہ محکمے اور متعلقہ قوانین کو صلواتیں ںسناتی رہی اور روتی رہی۔
"کیا ایک ماں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی بہتر کردار سازی کے لیے ان کی تھوڑی سی سرزنش بھی نہ۔کرسکے!" وہ پھر سے رونے لگی۔
ہم دونوں نے اس کی ڈھارس بندھائی۔ اسے امید دلائی کہ جلد ہی اس کے بچے اس کے پاس ہوں گے۔ قوانین بھی تو انسانی بہتری ہی کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ قوانین جہاں بھی بنائے جاتے ہیں وہ انسانی جزبات اور احساسات کو مدنظر ہی رکھ کر بنائےجاتے ہیں۔
اپریل کی کہانی کے بہت سے رخ اور زاویے ہیں۔ آپ اس حقیقی کہانی سے کوئی بھی سبق سیکھ سکتے ہیں۔
نوٹ:
بے سٹیٹ ہسپتال کی تصویر حاضرخدمت ہے۔ اپریل اور اس کے بچوں کی تصاویر منسلک کرنا مناسب نہیں۔
31 مئی 2024
حسنین نازش
میساچوسٹس
امریکہ
جاری ہے۔۔۔۔